سات ستمبرلازوال قربانیوں کے ثمرے کا دن
٧ستمبر ٤٧٩١ئ کا دن عشاقان مصطفی،فدایان ختم الرسل اور محبان خاتم النبیین ﷺ کے لئے ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔جب امت مسلمہ کے غیوراور عشق رسالت کے جذبہ صادق سے معمورمجاہدین ختم نبوت کی لازوال قربانیاں ،انتھک کاوشیں اورمساعی جمیلہ رنگ لائیں اور٣٥٩١ئ کی تحریک ختم نبوت میںتیرہ ہزارشہدائ کے بہنے والے مقدس خون کی برکت اور بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میںپاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے غداران ملک وملت اور دشمنیان دین ووطن فتنہ مرزائیت کے دونوں گروپوںقادیانی گروپ اورلاہوری گروپ کوغیرمسلم اقلیت قراردے کرقادیانی مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کردیا۔ پارلیمنٹ کایہ تاریخی اورجرأت مندانہ فیصلہ محض ایک اتفاقی امر،حادثاتی واقعہ اور مذہبی جنون کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے جذباتی عنصر کا شاخسانہ نہیں تھابلکہ کئی دنوں پر مشتمل طویل بحث ومباحثہ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعداراکین اسمبلی نے اس اہم مسئلے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے،اس کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے،اس کے تمام پہلووںکاسنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اورمرزائیت کے گمرا کن نظریات کی وجہ سے اسلام کے مجروح ہوتے ہوئے مذہبی تشخص کے پیش نظربڑی دیانتداری اور سلیقہ مندی سے انتہائی منصفانہ اورمعتدلانہ فیصلہ سنایا جوپاکستان کی سیاسی تاریخ کے ماتھے کا جھومراور اس کے خالص نظریاتی ریاست ہونے کی زندہ دلیل ہے۔حکومت وقت نے یہ کڑا فیصلہ کر کے تمام عالم اسلام بالخصوص اسلامیان پاکستان کے دل جیت لیے۔ اس فیصلے کو برادر اسلامی ملکوں میں بڑی قدروتحسین کی نگاہ سے دیکھتے اور سراہتے ہوئے لائق تقلید قراردیا گیااور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی ممالک میں دین کا سچا درد رکھنے والے علمائ کی کاوشوں سے قادیانیوں کو خارج از اسلام قراردلوایا گیا۔
تحریک کے عوامل و محرکات:
قادیانیت کے اسلام مخالف نظریات اور وطن دشمن اقدامات کی وجہ سے٣٥٩١ئ میں انہیں غیر مسلم اقلیت قراردلوانے کے لئے ملک بھر کے چوٹی کے علمائ کی قیادت میں جن میںامیر شریعت سید عطائ اللہ شاہ بخاریؒ کا نام سرفہرست ہے ،ایک عظیم ملک گیر تحریک کے ذریعے آئینی وقانونی جدوجہدکا آغازہوا۔یہ تحریک بوجوہ اپنی منزل کے حصول میںبظاہر ناکام رہی اوراسے بہت زیادہ مالی وجانی نقصان اٹھانا پڑا لیکن عشق رسالت مآب ﷺ کی جو چنگاری ناموس ختم نبوت کے چوکیداروں اور بے لوث خادموں میںاس تحریک کی وجہ سے بھڑک اٹھی تھی اورریاستی ظلم وجبرکی بنائ پروقتی طورپر دب گئی تھی،وہی چنگاری٤٧ئ کی تحریک میں پھر سے بھڑکی اور قادیانیت کے خرمن پر قہر بن کر ٹوٹی۔یہ اس تحریک کا حقیقی سبب تھا اور اس کاظاہری سبب مرزائی غنڈہ گردی کاایک واقعہ بناجس کے رد عمل میں یہ تحریک چلتے چلتے ملک کے کونے کونے میںپھیل گئی اور قادیانیت کے کفر کے فیصلے پراختتام پذیر ہوئی۔
ریلوے سٹیشن چناب نگر پر ہونے والا نزاع:
واقعہ یہ ہواکہ٩٢مئی٤٧٩١ئ کو ملتان نشتر کالج کے طلبائ کاایک گروپ ہفتہ بھر کے سیاحتی دورے پربذریعہ ٹرین پشاور کی طرف روانہ ہوا۔جب ٹرین چناب نگر سٹیشن پر آکررکی تو قادیانیوں نے اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق ان طلبہ اورمسافروں میں اپنا لٹریچر تقسیم کرناشروع کر دیا۔ان غیرت مند طلبائ نے دینی حمیت کی بنائ پر اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مزید لٹریچر تقسیم کرنے سے روک دیااورتقسیم شدہ لٹریچرمسافروں سے واپس لے لیا،ساتھ ہی ’’ختم نبوت،زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے مسافروں کے بھرے ہوئے ڈبے کوہلاکررکھ دیا۔ملحدانہ اورگمراہ کن عقائدپرمشتمل موادبانٹنے والے ان باغیان مصطفےﷺکوعشاقان مصطفےﷺکایہ جوابی رویہ ایک آنکھ نہ بھایاچنانچہ جوش انتقام میں بھڑکتے ہوئے ان قادیانی اوباشوں نے لڑائی کے لئے قریبی گراؤنڈ میں ہاکی کھیلتے قادیانی نوجوانوں کو بلایا،وہ اپنی ہاکیوں سمیت آدھمکے اورسب مل کرابھی مارپیٹ کرنے ہی والے تھے کہ مسافروں اور ٹرین عملے کی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہوگیااورتصادم ہوئے بغیر ٹرین روانہ ہو گئی۔یادرہے کہ اس واقعہ سے قبل نشترمیڈیکل کالج ملتان میں طلبائ کا انتخاب ہوا تھا جس میں ایک امیدوار قادیانی بھی تھا۔مسلمان طلبائ نے اس انتخابی مہم میںقادیانی امید وار کی مخالفت میں محض قادیانیت کی بنائ پربھرپورکردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں اسے ذلت آمیزشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا،اس واقعہ کی وجہ سے بھی قادیانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتاتھا،دوسری طرف یہ لٹریچر کی تقسیم کاواقعہ ہوگیاجس نے قادیانیت کے تندور میں جلتی کا کام دیا اور معاملہ شدید نزاع کی صورت اختیارکرگیا۔ربوہ(چناب نگر)کے تخت وتاج پرمحض اپنے راج کاجبری حق سمجھنے والی نسل مرزائیت کی نظر میں یہ واقعہ ان کی خودساختہ ریاست میں دخل اندازی اوران کی عوام پرظلم وستم کے مترادف تھا،اس لئے انہوں نے اس کا مؤثر جواب دینے کے لیے ایک خفیہ حکمت عملی اپنائی جس کے نقظہ آغاز میں انہوں نے اپنی سی آئی ڈی کے ذریعے ان طلبائ کی پشاور سے ملتان واپس روانگی کا معلوم کیا۔اس مذموم مقصد کی تکمیل کے لئے چناب نگر کے قادیانی ریلوے اسٹیشن ماسٹرنے نشتر آبااورسرگودھا کے اسٹیشن ماسٹرز سے بذریعہ فون رابطے کر کے اس پلان کوحتمی ترتیب دی۔طے یہ ہوا کہ جیسے ہی ٹرین چناب نگر اسٹیشن پر پہنچے گی تو پہلے سے تیار مسلح جتھے ان پر حملہ کرکے اپنے انتقامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
چنانچہ جب ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کے بعد یہ طلبائ اسی ٹرین کے ذریعے ملتان واپس لوٹے اور چناب نگرریلوے سٹیشن پر رکے تو اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریل کے اس ڈبے میں پہلے سے موجودقادیانی اوباشوں نے جونشتر آباد،لالیاںوغیرہ سے خاص طور پر اس مقصد کے لئے سوار ہوئے تھے،ان نہتے طلبہ پرڈنڈوں،مکوں،لاتوں ،گھونسوں اورآہنی ہتھیاروں سے حملہ کر دیااوراتنا تشدد کیا کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیے،جسم لہولہان کر دیے اورستم بالائے ستم یہ کہ ان کے پاس موجود ضروری سفری سامان اورنقدی رقوم پر بھی ہاتھ صاف کر گئے۔ناموس رسالت ﷺکے ان پہرے داروں پرجبرواستبداداورلوٹ مار کا یہ واقعہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیااوراس نے ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر لی جس نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس واقعہ کو ’’سانحہ ربوہ‘‘ کا نام دیا گیا،اس غنڈہ گردی کے واقعے پر شدید رد عمل دیتے ہوئے مولانا تاج محمودؒ نے فیصل آباد میں قادیانیوں کے خلاف ایک زبردست جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا جس کے بعدپورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے،اکثر شہروں میں ہڑتال ہوگئی،پولیس کی طرف سے مظاہرین پرآنسو گیس پھینکی گئی ،سخت لاٹھی چارج کیا گیااورسینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔سانحہ ربوہ پر ایکشن لینے کے لئے اسمبلی میں تھریک التوائ پیش کی گئی جسے ٤جون ٤٧٩١ئ کومسترد کر دیا گیا،ایوان اقتدار کی طرف سے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے پرمحدث العصر مولانا یوسف بنوریؒ نے ٩ جون کو بیس جماعتوں کے عمائدین کا اجلاس رکھا جس میں مفتی محمودؒ،نوابزادہ نصراللہ خانؒ،آغا شورش کاشمیریؒ ،غلام شیخ جیلانیؒ اورمتعددزعمائے ملت نے شرکت کی،اس اجلاس میں بہرصورت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا عزم مصمم کیا گیا اورمجلس عمل کی طرف سے٤١جون کوملک گیر ہڑتال کا فیصلہ کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ کی کاروائی:
ان شوریدہ حالات اور تشویشناک صورتحال نے ارباب اقتدار کے لئے بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی اورانہیںاس کے مضبوط،مؤثر اوردیرپاحل کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے پر مجبور کردیا۔چنانچہ اس وقت کے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے اپنی ذاتی دلچسپی کی بنائ پراس مسئلے کوقومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پرپیش کرنے کا فارمولہ پیش کیا تاکہ اراکین اسمبلی آزانہ اور جمہوری طریقے سے اسے حل کرسکیں اور جو بھی فیصلہ ہو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔اس اعلان سے قادیانی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی کیونکہ اپنے کفریہ عقائد اورحالیہ واقعے میںجارحانہ پالیسی اپنانے اورملک میں پیداشدہ نئی صورتحال کے تناظر میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ بہرصورت ہمارے خلاف آئے گا،اس لئے انہوں نے وزیراعظم بھٹو اورقومی اسمبلی کے جنرل سیکٹری کو درخواست بھجوائی کہ پارلیمنٹ میں ہمارے عقائد پر بات ہونی ہے تو ہمیں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے منصب پرمفکراسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒفائز تھے جن سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے سربراہان کوقومی اسمبلی کے فلور پر اپنے عقائد پر بحث کرنے کی اجازت دے دی اوراس کے ساتھ ساتھ اس اہم ایشو پراس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس کی زیر صدارت پورا مہینہ وقفے وقفے سے اجلاس ہوتے رہے۔
٥اگست ٤٧٩١ئ بروز پیرصبح دس بجے پاکستان سٹیٹ بینک اسلام آباد میں واقع قومی اسمبلی کے ہال میں ا س سلسلے کا پہلا اجلاس منعقد ہواجس میں قادیانی گروپ کے تیسرے سربراہ مرزاناصر احمد پرجرح ہوئی ،تمام منبران اسمبلی کویہ مکمل اختیار دیا گیاکہ وہ اس مسئلہ سے متعلق جو سوال کرنا چاہیں وہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحیی بختیار کے ذریعے سے کر سکتے ہیں۔مفکراسلام مولانا مفتی محمودؒ اورمجاہدملت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒمرزاناصرکی طرف سے پیش کئے جانے والے دلائل کا جواب دیتے۔یہ جرح ٤٢ اگست کو مکمل ہوئی،٥ اگست سے ٤٢ اگست تک کل٠٢ دن بنتے ہیں جن میں ١١ اگست سے ٩١ اگست تک یعنی نودن اسمبلی کی کاروائی معطل رہی،یوں یہ جرح گیارہ دن بنتی ہے۔اس کے تین دن بعد٧٢اور٨٢ اگست کولاہوری گروپ پرجرح ہوئی جس میں اس گروپ کے تین بڑے گروصدرالدین لاہوری،مسعود بیگ لاہوری اورعبدالمنان لاہوری پیش ہوئے۔یہ جرح دودن جاری رہی،اس طرح کل تیرہ دن میں یہ جرح اپنے اختتام کو پہنچی۔قادیانیوں پرجرح کا عمل مکمل ہونے کے بعداب مسلمانوں کی باری تھی ،چنانچہ اگلے دوروزیعنی٩٢ اور٠٣اگست کو مفتی محمودؒ نے قادیانیوں کے خلاف امت مسلمہ کا موقف جس کی سیاسی کاروائی شہیدناموس رسالت مولانا سمیع الحقؒ اورمذہبی ابحاث شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے شیخ بنوریؒکے ایمائ پر قلمبندفرمائی تھی،قومی اسمبلی میں پیش فرمایا۔١٣ اگست کورکن اسمبلی مولانا عبدالحکیمؒ نے مسئلہ ختم نبوت پرمولانا غلام غوث ہزارویؒ کا تیارکردہ محضرنامہ پڑھا۔٢ اور ٣ستمبرکودیگرمختلف ارکان اسمبلی کے بیانات ہوئے۔٤ستمبرکو سری لنکا کے وزیر اعظم کی آمد پر ان کے اعزاز میںاجلاس ہوا اس لئے اس دن یہ مسئلہ زیربحث نہ لایا گیا۔٥ ستمبرکومزید کچھ ارکان اسمبلی نے اس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایااور ااٹارنی جنرل نے مکمل جرح کا خلاصہ پیش کیاجو٦ستمبر کویراپنے اختتام کو پہنچا۔
سات ستمبرکا تاریخی دن:
بالآخر ٧ستمبر کا دن آن پہنچا،١٢دن کی بحث وتمحیص کے بعدآج اس قضیے کا فیصلہ سنایا جانا تھا،قوم کی نگاہیں آج کے خصوصی اجلاس کی طرف لگی ہوئی تھیں،مساجد ،مدارس اورخانقاہوں میں اورادووظائف اور دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا،نظام زندگی اور کاروباری سرگرمیاں تقریبا معطل ہو چکی تھیں،کچھ ٹی وی کی سکرین پر نظریں جمائے تو کچھ ریڈیو کی آواز پر کان لگائے بیٹھے اس تاریخی فیصلے کے شدت سے منتظرتھے۔دل دہل رہے تھے،عجیب سا سماں تھا، اڑھائی بجے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغازہوا، وزیربرائے قانون وپارلیمانی امورجناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے مختصر ابتدائی کلمات کے بعداپنے سمیت مولانا مفتی محمودؒ،مولانا شاہ احمدنورانیؒ،پروفیسرغفوراحمدؒ،جناب غلام فاروق ؒ،چوہدری ظہورالہیؒ اورسردارمولابخش سومروؒ(سات افراد)کی طرف سے قادیانیوں کو کافر قراردینے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے تین بج کر چالیس منٹ پرختم نبوت کے آئین کوتحفظ دینے والے اورغیرت مند مسلم قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرنے والے یہ الفاظ ادا کیے
’’جو شخص خاتم النبیین محمدﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہواور محمدﷺ کے بعد کسی بھی معنی مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعوی کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہووہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں‘‘۔یہ قراردادسپیکر کی جانب سے منظور کرلی گئی۔
اس تاریخی اور ایمان افروز لمحے میں فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں تھے ،’’الحمد للہ‘‘مبارک مبارک‘‘’’اللہ اکبر‘‘ اور تہنیتی الفاظ سے مبارکبادی کا سلسلہ جاری تھا،اظہارمسرت کے لئے مٹھائیاں اور شیرینیاں بانٹی جا رہی تھیں اور تمام عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں ایک جشن کا سماں تھا۔
فللہ الحمد وبنعمتہ تتم الصالحات