Key Points
- No content found
سات ستمبر یوم ختم نبوت،امت مسلمہ کیلئے ایک تاریخی دن ……جب قادیانیوں کوپارلیمنٹ میں شکست ہو ئی
- مولانا قاری شبیر احمد عثمان،
- نائب امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان
7ستمبر1974 کاعظیم دن عالم اسلام کے لیے بالعموم اور اسلامیانِ پاکستان کیلئے بالخصوص ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔اس دن خلاق ِ عالم نے ختمِ نبوت کے لیے جدوجہد کرنیوالے اور اس مبارک کام کے لیے خود کو میدانِ عمل میں اتارنے والے علماء،طلباء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ مجاہدین ختم نبوت اور فدایان ختم الرسلﷺ کی بے مثال قربانیوں اور انتھک کاو شو ں کے نتیجے میں قادیانی مسئلہ ہمیشہ کے لیے قانونی طور پر حل کر دیا،یہ دراصل ۳۵۹۱ء کی تحریک ختم نبوت میں تیرہ ہزارشہداء کے بہنے والے مقدس خون کی برکت تھی کہ ان کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے مالک کائنات نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے غداران ملک وملت اور دشمنان دین ووطن فتنہ مرزائیت کے دونوں گروپوں قادیانی گروپ اورلاہوری گروپ کوغیرمسلم اقلیت قراردے کرقادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ محض مذہبی جنونیت کی آڑ یا دینی طبقہ کے دباؤ کے تحت عجلت میں نہیں کیا گیا بلکہ کئی دنوں پر مشتمل طویل بحث ومباحثہ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعداراکین اسمبلی نے اس اہم مسئلے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے،اس کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے،اس کے تمام پہلوؤں کاسنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اورمرزائیت کے گمرا کن نظریات کی وجہ سے اسلام کے مجروح ہوتے ہوئے مذہبی تشخص کے پیش نظر انتہائی منصفانہ اورمعتدلانہ فیصلہ سنایا جواس بات کا واضح ثبوت تھا کہ پاکستان ایک نظریاتی شناخت رکھنے والا ملک ہے جو کسی بھی اسلام مخالف نظریے کواتنی آسانی سے پروان نہیں چڑھنے دے سکتا۔ ۳۵۹۱ء میں ختم نبوت کی جو تحریک چلی تھی وہ ریاستی جبر اور قادیانیوں پر حکومتی سرپرستی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی لیکن اس کے ٹھیک اکیس سال بعد ۴۷۹۱ء میں قادیانیت کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر چناب نگر(سابقہ ربوہ)میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیاجس کے ردِ عمل میں دوسری بار تحریک چلی جو قادیانیت کے خرمن پر قہربن کر ٹوٹی اوربالآخر انکے کفر کے فیصلے پر اختتام پذیر ہوئی۔وہ واقعہ یہ ہواکہ۹۲مئی۴۷۹۱ء کو ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کاایک گروپ ہفتہ بھر کے سیاحتی دورے پربذریعہ ٹرین پشاور کی طرف روانہ ہوا،جب ٹرین چناب نگر سٹیشن پر آکررکی تو قادیانیوں نے اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق ان طلبہ اورمسافروں میں اپنا لٹریچر تقسیم کرناشروع کر دیا۔ان غیرت مند طلباء نے دینی حمیت کی بناء پر اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مزید لٹریچر تقسیم کرنے سے روک دیااورتقسیم شدہ لٹریچرمسافروں سے واپس لے لیا،ساتھ ہی ”ختم نبوت زندہ باد“ کے فلک شگاف نعروں سے مسافروں کے بھرے ہوئے ڈبے کو ہلا کررکھ دیاملحدانہ اور گمراہ کن عقائدپرمشتمل مواد بانٹنے والے ان باغیان مصطفیﷺکوعشاقان مصطفی ﷺ کایہ جوابی رویہ ایک آنکھ نہ بھایاچنانچہ جوش انتقام میں بھڑکتے ہوئے ان قادیانی اوباشوں نے لڑائی کے لئے قریبی گراؤنڈ میں ہاکی کھیلتے قادیانی نوجوانوں کو بلایا،وہ اپنی ہاکیوں سمیت آدھمکے اورسب ملکر ابھی مارپیٹ کرنے ہی والے تھے کہ مسافروں اور ٹرین عملے کی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہو گیا اورتصادم ہوئے بغیر ٹرین روانہ ہو گئی، اس واقعہ سے پہلے قادیانیوں کی ہزیمت کا ایک اورواقعہ بھی رونما ہوا تھا جس کی وجہ سے قادیانی مسلمانوں پر غضبناک تھے،وہ یہ کہ نشترمیڈیکل کالج ملتان میں طلباء کا انتخاب ہوا تھا جس میں ایک امیدوار قادیانی بھی تھا، مسلمان طلباء نے اس انتخابی مہم میں قادیانی امید وار کی مخالفت میں محض قادیانیت کی بناء پربھرپورکردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں اسے ذلت آمیزشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا،اس واقعہ کی وجہ سے بھی قادیانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتاتھا،دوسری طرف یہ لٹریچر کی تقسیم کاواقعہ ہوگیاجس نے قادیانیت کے تندور میں جلتی کا کام دیا اور معاملہ شدید نزاع کی صورت اختیارکرگیا،ربوہ (چناب نگر)کے تخت وتاج پرمحض اپنے راج کاجبری حق سمجھنے والی نسل مرزائیت کی نظر میں یہ واقعہ ان کی خودساختہ ریاست کے معاملات میں دخل اندازی اوران کی عوام کے مذہبی حقوق کو سلب کرنے کے مترادف تھا،اس لئے انہوں نے اس کا مؤثر جواب دینے کے لیے ایک خفیہ حکمت عملی اپنائی جس کے نقظہ آغاز میں انہوں نے اپنی سی آئی ڈی کے ذریعے ان طلباء کی پشاور سے ملتان واپس روانگی کا معلوم کیا۔اس مذموم مقصد کی تکمیل کیلئے چناب نگر کے قادیانی ریلوے اسٹیشن ماسٹرنے نشتر آبااورسرگودھا کے اسٹیشن ماسٹرز سے بذریعہ فون رابطے کر کے اس پلان کوحتمی ترتیب دی۔طے یہ ہوا کہ جیسے ہی ٹرین چناب نگر اسٹیشن پر پہنچے گی تو پہلے سے تیار مسلح جتھے ان پر حملہ کرکے اپنے انتقامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔پروگرام کے مطابق جب ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کے بعد یہ طلباء اسی ٹرین کے ذریعے ملتان واپس لوٹے اور چناب نگرریلوے سٹیشن پر رکے تو اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریل کے اس ڈبے میں پہلے سے موجودقادیانی اوباشوں نے جونشتر آباد،لالیاں وغیرہ سے خاص طور پر اس مقصد کے لئے سوار ہوئے تھے،ان نہتے طلبہ پرڈنڈوں،مکوں،لاتوں،گھونسوں اورآہنی ہتھیاروں سے حملہ کر دیااوراتنا تشدد کیا کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیے،جسم لہولہان کر دیے اورستم بالائے ستم یہ کہ ان کے پاس موجود ضروری سفری سامان اورنقدی رقوم پر بھی لے اڑے۔ناموس رسالت ﷺکے ان پہرے داروں پرجبرواستبداداورلوٹ مار کا یہ واقعہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیااوراس نے ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر لی جس نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس واقعہ کو ”سانحہ ربوہ“ کا نام دیا گیا،اس غنڈہ گردی کے واقعے پر شدید رد عمل دیتے ہوئے مولانا تاج محمودؒ نے فیصل آباد میں قادیانیوں کے خلاف ایک زبردست جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا جس کے بعدپورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے،اکثر شہروں میں ہڑتال ہوگئی،پولیس کی طرف سے مظاہرین پرآنسو گیس پھینکی گئی،سخت لاٹھی چارج کیا گیااورسینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔سانحہ ربوہ پر ایکشن لینے کے لئے اسمبلی میں تحریک التواء پیش کی گئی جسے ۴جون ۴۷۹۱ء کومسترد کر دیا گیا،حکومت کی طرف سے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے پرمحدث العصر مولانا یوسف بنوریؒ نے ۹ جون کو بیس جماعتوں کے عمائدین کا اجلاس رکھا جس میں مفتی محمودؒ،نوابزادہ نصراللہ خانؒ،آغا شورش کاشمیریؒ،غلام شیخ جیلانیؒ اورمتعددزعمائے ملت نے شرکت کی،اس اجلاس میں بہرصورت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا عزم مصمم کیا گیا اورمجلس عمل کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ۴۱ جون کو ملک بھر میں عام ہڑتال ہو گی۔قادیانیوں کے نزدیک اس واقعہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی،وہ اس کو ہلکا لے رہے تھے اور اس زعم میں مبتلا تھے کہ مظاہرین دو چار دن کے بعد خاموش ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے،لیکن معاملہ ان کی توقع کے بالکل بر عکس ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ احتجاج شدت اختیار کرتا گیا۔ ملک میں پیدا شدہ اضطرابی صورتحال نے ارباب اقتدار کے لئے بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی اورانہیں اس کے مضبوط،مؤثر اوردیرپاحل کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے پر مجبور کردیا۔چنانچہ اس وقت کے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے اپنی ذاتی دلچسپی کی بناء پراس مسئلے کوقومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پرپیش کرنے کا فارمولہ پیش کیا تاکہ اراکین اسمبلی آزادانہ اور جمہوری طریقے سے اسے حل کرسکیں اور جو بھی فیصلہ ہو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔اس اعلان سے قادیانی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی کیونکہ اپنے کفریہ عقائد اورحالیہ واقعے میں جارحانہ پالیسی اپنانے اورملک میں پیداشدہ نئی صورتحال کے تناظر میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ بہرصورت ہمارے خلاف آئے گا،اس لئے انہوں نے وزیراعظم بھٹو اورقومی اسمبلی کے جنرل سیکٹری کو درخواست بھجوائی کہ پارلیمنٹ میں ہمارے عقائد پر بات ہونی ہے تو ہمیں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے منصب پرمفکراسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒفائز تھے جن سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے سربراہان کوقومی اسمبلی کے فلور پر اپنے عقائد پر بحث کرنے کی اجازت دے دی اوراس کے ساتھ ساتھ اس اہم ایشو پراس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس کی زیر صدارت پورا مہینہ وقفے وقفے سے اجلاس ہوتے رہے اور فریقین کی آراء سامنے آتی رہیں۔ اس سلسلے کا پہلا اجلاس ۵اگست ۴۷۹۱ء بروز پیرصبح دس بجے پاکستان سٹیٹ بینک اسلام آباد میں واقع قومی اسمبلی کے ہال میں منعقد ہواجس میں قادیانی گروپ کے تیسرے سربراہ مرزاناصر احمد پرجرح ہوئی،تمام ممبران اسمبلی کویہ مکمل اختیار دیا گیاکہ وہ اس مسئلہ سے متعلق جو سوال کرنا چاہیں وہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کے ذریعے سے کر سکتے ہیں۔مفکراسلام مولانا مفتی محمودؒ اورمجاہدملت مولاناغلام غوث ہزارویؒ ؒمرزاناصرکی طرف سے پیش کئے جانے والے دلائل کا جواب دیتے،یہ جرح ۴۲ اگست کو مکمل ہوئی،۵ اگست سے ۴۲ اگست تک کل۰۲ دن بنتے ہیں جن میں ۱۱ اگست سے ۹۱ اگست تک یعنی نودن اسمبلی کی کاروائی معطل رہی،یوں یہ جرح گیارہ دن بنتی ہے۔اس کے تین دن بعد۷۲اور۸۲ اگست کولاہوری گروپ پرجرح ہوئی جس میں اس گروپ کے تین بڑے گروصدرالدین لاہوری،مسعود بیگ لاہو ر ی اورعبدالمنان لاہوری پیش ہوئے،یہ جرح دو دن جاری رہی،اس طرح کل تیرہ دن میں یہ جرح اپنے اختتام کو پہنچی۔قادیانیوں پرجرح کا عمل مکمل ہونے کے بعداب مسلمانوں کی باری تھی،چنانچہ اگلے دوروزیعنی۹۲ اور۰۳اگست کو مفتی محمودؒ نے قادیانیوں کے خلاف امت مسلمہ کا موقف جس کی کاروائی مولانا سمیع الحقؒ اورمذہبی ابحاث شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے شیخ بنوریؒکے ایماء پر قلمبندفرمائی تھی،قومی اسمبلی میں پیش فرمایا۔۱۳ اگست کورکن اسمبلی مولانا عبدالحکیمؒ نے مسئلہ ختم نبوت پرمولانا غلام غوث ہزارویؒ کا تیارکردہ محضرنامہ پڑھا۔۲ اور ۳ستمبرکودیگرمختلف ارکان اسمبلی کے بیانات ہوئے۔۴ستمبرکو سری لنکا کے وزیر اعظم کی آمد پر ان کے اعزاز میں اجلاس ہوا اسلئے اس دن یہ مسئلہ زیربحث نہ لایا گیا۔۵ ستمبر کو مزید کچھ ارکان اسمبلی نے اس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایااور اٹارنی جنرل نے مکمل جرح کا خلاصہ پیش کیاجو۶ستمبر کواپنے اختتام کو پہنچا،یہ اس سلسلے کا آخری اجلاس تھا۔ فریقین میں ۱۲دن کی بحث وتمحیص کے بعدپارلیمنٹ میں آج اس بل کی منظوری کے حوالہ سے سپیکر کی جانب سے ووٹنگ ہونی تھی اور اکثریت ِ رائے کی بنیاد پر فیصلہ سنایا جانا تھا،قوم کی نگاہیں آج کے خصوصی اجلاس کی طرف تھیں،مساجد،مدارس اور خانقا ہو ں میں اورادوظائف اور دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا،نظام زندگی اور کاروباری سرگرمیاں تقریبا معطل ہو چکی تھیں،کچھ ٹی وی کی سکرین پر نظریں جمائے تو کچھ ریڈیو کی آواز پر کان لگائے بیٹھے اس تاریخی فیصلے کے شدت سے منتظرتھے۔دل دہل رہے تھے،آس اور یاس کے ملے جلے خیالات نے دل و دماغ پر قبضہ جما رکھا تھا، اڑھائی بجے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغازہوا، وزیر قانون وپارلیمانی امو ر جنا ب عبدالحفیظ پیرزادہ نے تین بج کر چالیس منٹ پر مختصر ابتد ا ئی کلمات کے بعداپنے سمیت مولانا مفتی محمودؒ،مولانا شاہ احمدنورانی ؒ، پروفیسرغفور احمدؒ، جناب غلام فاروق ؒ،چوہدری ظہورالہیؒ اورسردارمولابخش سومرو ؒ(سات ممبرانِ پار لیمنٹ)کی طرف سے قادیانیوں کو کافر قراردینے کی قرارداد پڑھ کر سنائی،جس کا مضمون یہ تھا”جو شخص خاتم النبیین محمدﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہواور محمدﷺ کے بعد کسی بھی معنیٰ مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہووہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں“، اس کے بعد جب اس قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو کوئی ووٹ بھی اس کے خلاف نہ آیا،گویا یہ فیصلہ اکثریت ِ رائے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اجتماعی اور متفقہ رائے سے کیا گیا، اسپیکر کی جانب سے قرارداد منظور ہو جانے کے بعد جب یہ خبر ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہوئی تو یہ ایک تاریخی اور ایمان افروز لمحہ تھا،فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں تھے،ہر طرف مبارکبادی کا سلسلہ جاری تھااور ۳۵۹۱ء کے شہداء کی قربانیو ں کے نتیجے میں آج امت مسلمہ کو یہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا۔