Key Points
- No content found
قانون توہین رسالت ﷺاور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کا جائزہ
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اسلام دشمن قوتوں کو اس حقیقت کا بخوبی شعور ادراک ہے جب تک مسلمانوں کے قلوب میں عشق رسولﷺ اور ان کی گردنوں میں غلامی رسولﷺکا طوق موجود ہے ان کی گردنوں میں کسی استعمار، سامراج کی غلامی کا پٹہ آسکتا ہے نہ ہی انہیں محکوم و غلام بنایا جا سکتا ہے مسلمانوں کی یہی متاع فرزندان ابلیس کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے اہل ایمان کے قلوب و اذہان سے عشق رسول ﷺ و محبت رسول ختم کرنے کیلئے ابلیسی سازشوں کی ایک خوفناک طویل تاریخ ہے اہل ایمان کی عقیدت و محبت کا محور و مرکز عزیز از جان، کائنات کی معظم و محترم ترین شخصیت محسن کائنات حضور رحمتہ اللعالمین ﷺ کی توہین و گستاخی کر کے جہاں خبث باطن کا اظہار کیا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو بری طرح کچلا جاتا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا میں توہین رسالت کے مرتکبین گستاخان رسول کو پروٹوکول دیا جاتا ہے،پاکستان میں قانون توہین رسالت ﷺ 295-C اپنی تنفیذ سے لے کر اس وقت تک سازشوں کی زد میں ہے ہر حکومت نے امریکہ اور صیہونی اور صلیبی قوتوں کی خوشنودی کیلئے اس دفعہ کو ختم کرنے، غیر مؤثر کرنے کی کوشش کی۔ بے نظیر بھٹو سے نواز شریف تک……جنرل مشرف سے زرداری تک ……کوئی حکمران اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا قانون توہین رسالت ﷺپر دینی قوتوں اور سیکولر عناصر میں کئی معرکے برپا ہو چکے ہیں۔گستاخ رسولﷺ آسیہ نامی مسیح خاتون کے مقدمہ کے آڑ میں قانون توہین رسالت ﷺ کو غیر مؤثر بنانے کیلئے لادین سیکولر عناصر، مغرب کے پروردہ طبقات، مغربی فیڈر پر پلنے والے این جی اوز، اسٹیبلشمنٹ میں موجود قادیانی لابی، یہود و ہنود کے ایجنٹوں نے ملک میں ایک دھماچوکڑی برپا کی،انہیں اپنے بیرونی آقاؤں کی اشیر باد کے ساتھ پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں موجود عقل و دانش کے بیوپاری، قلم کی حرمت کے سوداگر، ضمیر و شعور سے محروم، ایمانی حمیت سے نا آشنا، نام نہاد صحافیوں، دانشوروں، اینکر پرسنز کی تائید و حمایت حاصل رہی، یہ تمام قوتیں ایک بار پھر شمع رسالتﷺ کے پروانوں کا امتحان لینا چاہتی تھیں۔ ان قوتوں کو شاید اس بات کا ادراک و احساس نہیں، مسلمانوں کی بقاء و سلامتی صرف اور صرف اسلام کے نظریہ حیات سے جڑے رہنے اور آقائے دو جہاں ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ رہنے میں ہے۔ قانون توہین رسالت ﷺ مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے اہل ایمان کی عظیم متاع عشق رسول ﷺ و محبت رسول ﷺہے اس پر کسی قیمت سودے بازی نہیں ہو سکتی اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ناموس رسالت ﷺ پر جان نچھاور کرنا سعادت تصور کرتے ہیں، سیدنا معاذ ؓ، سیدنا معوذؓ، سیدنا زید ؓ،سیدنا خبیبؓ سے غازی عبد القیوم، غازی علم الدین، غازی عامر چیمہ تک شہیدان وفا کی ایک سنہری تاریخ ہے جنہوں نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کیا جان تو دی جاسکتی ہے مگر گستاخ رسولﷺ کو کسی قیمت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی قوم نے ناموس رسالت ﷺ کی پاسبانی کیلئے 1953اور 1974 میں لازوال قربانیوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔نبی کی عزت و حرمت پر مرناعین ایمان ہے……سر مقتل بھی ان کا ذکر کرناعین ایمان ہے…… ڈراتا ہے تو ہمیں دارو رسن سے کیوں ارے نادان ……نبی کے عشق میں سولی پہ چڑھنا عین ایمان ہے……طاغوت کے آلہ کاروں، فرزندان ابلیس نے ہمیشہ مسلمانوں کو عشق رسولﷺکے سرمایہ سے محروم کرنے کی کوششیں کیں، سرکارِ دو عالمﷺ کی عزت و حرمت، قبائے نبوت پر حملے کئے۔ مہدی سوڈانی، بہا ء اللہ ایرانی، مرزا غلام احمد قادیانی جیسے دجالوں سے نبوت کا دعویٰ کرانے سے لے کر برطانیہ کے ملعون سلمان رشدی، بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین، افغانستان کی مریم، مصر کے ناصر ابو زائد، ترکی کے عزیز نشیں جیسے گستاخان رسول گندی سوچ، ناپاک خیالات، زہریلی زبان، مکروہ قلم سے توہین رسالت ﷺ کے ارتکاب کرانے تک اور خواتین کے ملبوسات پر قرآنی آیات اور جوتوں کے تلووں پر اسمائے مقدسہ کی پرنٹنگ، رسائل و جرائد میں انبیاء عظام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی فرضی تصاویر اور فیس بک ودیگر سوشل میڈیا پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور ان مقدس شخصیات کے کرداروں پر بننے والے دل آزار فلموں کے پیچھے یہی ابلیسی ذہنیت، طاغوتی سوچ، کفریہ منصوبے کار فرما ہیں۔ یہ بات بڑی تعجب خیز ہے وہ ملک جو اسلام کے نام پر معرضِ وجودمیں آیا اور جس کے جھنڈے میں گنبد خضریٰ کا رنگ بھرا گیا اس ملک میں 1947 سے 1986 تک توہین رسالتﷺ کی سزا صرف چھ ماہ قید تھی۔17 مئی 1986 ویمن کمیشن فورم کی چیئرمین عاصمہ جہانگیر نے اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں شریعت بل کے خلاف تقریر کرتے ہوئے سرکار دوعالم ﷺ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جس پر پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ پوری قوم سراپائے احتجاج بن گئی مگر حکومت نے عاصمہ جہانگیر کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا، وہ ملک سے باہر چلی گئی۔ اس کے خلاف ممبر قومی اسمبلی محترمہ آپا نثار فاطمہ نے اسمبلی میں آواز بلند کی۔ جس پر پاکستان کی قومی اسمبلی نے توہین رسالت کا قانون 295-C منظور کیا، اور 1986 میں اس دفعہ کا اطلاق ہوا۔یاد رہے کہ تعزیراتِ پاکستان 1860 جو قیام پاکستان سے قبل تعزیراتِ ہند کہلاتی تھیں اس میں ایک مستقل باب (15) موجود ہے جس میں مذہب سے تعلق رکھنے والے جرائم اور انکی سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے یہ (باب 15) 295.296.297.298 کی دفعات پر مشتمل ہے۔ گویا کہ ڈیڑھ صد سال قبل بھی کسی کے مذہبی عقائد اور ان کی عبادت گاہوں، ان کی مقدس شخصیات کی بے حرمتی کو جرم تسلیم کیا گیا۔1927 میں اس دفعہ (ذیلی 295الف A) اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کے تحت لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام ثابت ہونے پر اڑھائی سال تک کی سزا ملزم کو دی جاسکتی تھی۔ 1982 میں صدر ضیاء الحق نے قرآن کریم کے تقدس کیلئے اس دفعہ B(ب) کا اِضافہ کیا۔ 1986 میں قومی اسمبلی جس کے ممبران میں مولانا عبد الحق رحمتہ اللہ علیہ، علامہ عبد المصطفیٰ الازہری رحمۃ، علامہ شاہ بلیغ الدین رحمۃ، مولانا معین الدین لکھنوی رحمۃ جیسے اکابرین ملت تھے، دفعہ 295-C (ج) کا اضافہ کیا گیا۔ چنانچہ -C 295 تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بن گئی جس کے بموجب نبی کریمﷺ کے بارے میں توہین آمیز بات کرنا وغیرہ جو کوئی زبانی یا تحریری الفاظ کے ذریعے یا واضح انداز یا بذریعہ بہتان طرازی یا بذریعہ طعن آمیز اشارہ کرے گا اس توہین و گستاخی کی سزا سزائے موت یا عمر قید یا جرمانے کی سزا مقرر کی گئی۔اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا وفاقی شرعی عدالت نے اکتوبر 1990 میں اپنے فیصلہ میں صدر پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ 30 اپریل 91 تک اس قانون میں اصلاح کر لیں یا عمر قید کے الفاظ ختم کر لیں۔اگر مقررہ تاریخ تک ایسا نہ کیا تو یہ الفاظ خودبخود کالعدم تصور ہونگے۔ مقررہ تاریخ تک صدرِ پاکستان نے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ 1992 میں پاکستان کی قومی اسمبلی پھر سینٹ نے قانون توہین رسالت ﷺ295-C کو منظور کیا۔ گستاخ رسولﷺ کے لیے سزائے موت کا قانون قرآن مجید، احادیث رسولﷺ، تعامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، اجماع امت کی عکاسی کرتا ہے، دور نبوت سے لیکر اس وقت تک مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور اکرمﷺ کی گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے۔ امریکی اور مغربی دنیا بلا جواز اس پہ چیخ و پکار کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ان کے ایجنٹ اسٹیبلشمنٹ میں موجود قادیانی لابی سیکولر ذہن کے حامل نام نہاد دانشور اور این جی اوز اس کو وحشیانہ سزا، کالا قانون کہہ کر جہاں مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کا مذاق اڑاتے ہیں وہاں آئین پاکستان کی تضحیک کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔ پاکستان میں توہین رسالت ایکٹ کے خلاف سازشوں کے پس پردہ بنیادی کردار قادیانی لابی کا ہے، پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن میں بھی اس قماش کے لوگ موجود ہیں۔1988 میں جب پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو قادیانیوں کو اس میں بھرپور نمائندگی حاصل تھی۔ جسٹس دراب پٹیل (پارسی) اس کے پہلے صدر اور عاصمہ جہانگیر اس کی پہلی جنرل سیکرٹری بنیں۔ بعد میں عاصمہ جہانگیر اس کی چئیر پرسن اور آئی اے رحمن اس کے ڈائریکٹر بنے۔ حسین نقی، بیگم نگار احمد، حنا جیلانی وغیرہ جیسے قادیانی افراد کمیشن کے روح رواں ہیں۔ ہیومن رائٹس کی طرف سے ہر سال شائع ہونے والی رپورٹ میں قادیانیوں کے ساتھ کی جانے والی مبینہ زیادتیوں اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔کمیشن کی کوئی ایک رپورٹ بھی ایسی نہیں ہے جس میں 295-C کے قانون توہین رسالت ﷺ کو اقلیتوں کے استشائی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ نہ کیا گیا ہو۔ پاکستان میں مغربی سرمائے کی بل بوتے پر این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا جال بچھا دیا گیا۔ مسیحی مغرب سے فنڈز کی وصول یابی کے لیے پاکستان کی کیتھولک عیسائی تنظیموں کو بھی ساتھ ملایا گیا۔ 95 میں سلامت مسیح کیس کی وکالت کر کے عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے عیسائی اقلیت میں اپنا اعتبار قائم کیا اور عیسائیوں کے اندر کام کرنے والی مختلف نئی اور پرانی تنظیموں کو295-C کے خلاف تحریک چلانے کے لیے منظم کیا گیا۔ اس احتجاجی تحریک میں آنجہانی بشپ جان جوزف عملاً پیش پیش تھے۔ انہوں نے قادیانیوں کے ساتھ مل کر یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے دورے کئے اور وہاں کی حکومتوں کو295-C کا قانون واپس لینے کے لیے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار کیا۔ (بحوالہ کتاب:کیا امریکہ جیت گیا)مئی 1993 میں گجرانوالہ کے نواحی علاقہ رتہ دوتہر میں رحمت مسیح، منظور مسیح، سلامت مسیح نے جامعہ مسجد کی لیٹرینوں میں ایسی پرچیاں پھینکیں جن میں سرکار دوعالمﷺ کی شان اقدس میں توہین آمیز جملے تحریر کئے گئے اس سے قبل مسجد کی لیٹرینوں کی اندرونی دیواروں اور مقامی سکول کی بیرونی دیواروں پر توہین آمیز تحریریں لکھی پائی گئیں۔ ملزمان موقع پر گرفتار ہوئے مقدمہ درج ہوا سیشن کورٹ میں سزائے موت سنائی گئی۔ جس پر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کہا اس فیصلہ پر وہ ذاتی طور پر ناخوش ہیں اور عدالت کے فیصلہ پر انہیں حیرت بھی ہوئی ہے اور دکھ بھی انہوں نے کہا کہ وہ قانون توہین رسالت میں ترمیم کرنا چاہتی ہیں۔ (روزنامہ نوائے وقت، جنگ لاہور 14 فروری 1995)لاہور ہائیکورٹ نے اس کیس کی انتہائی سرعت کے ساتھ سماعت کرتے ہوئے ملزمان کو رہا کر دیا اور فیصلہ میں لکھا کہ اس کیس کی ازسرنو تفتیش کر کے اصل مجرم گرفتار کیئے جائیں حکومت اس پر فی الفور توجہ دے اور ضروری اقدامات کرے، مگر افسوس کہ اس کیس کی ازسرنو تفتیش ہوئی نہ اصل مجرم پکڑے گئے۔ بلکہ مجرموں کو پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک روانہ کیا گیا۔ جس سے گستاخان رسول ﷺ کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ لاہور ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت کرنے والے ایڈ ہاک بنیاد پر بھرتی کئے گئے جسٹس عارف اقبال بھٹی، جسٹس خورشید احمد نے کی، دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا، عارف بھٹی نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی (نواز شریف کے خلاف) الیکشن لڑا تھا اور پیپلز ورکس پروگرام کا انچارج بھی رہا دینی حلقوں نے بڑی شدت کے ساتھ مطالبہ کیا کہ مذکورہ دونوں ججوں کو سماعت سے روکا جائے اور غیر جانبدار اور اچھی شہرت کے حامل ججوں پر بنچ بنایا جائے جو اس کیس کی سماعت کرے مگر اس مطالبہ کی شنوائی نہ ہوئی……جنرل پرویز مشرف کے زمام اقتدار سنبھالتے ہی مغربی فیڈز پر پلنے والی این جی اوز، قادیانی لابی اور یہود و ہنود کے پروردہ عناصر، قانون توہین رسالت ﷺکے خاتمہ کیلئے ایک نئی مہم میں مصروف ہوگئے۔پرویز مشرف نے این جی اوز کی بلیک میلنگ، بیرونی دباؤ میں آکر قانون توہین رسالت ﷺ کو غیر مؤثر بنانے کی ٹھان لی، اس نے قانون توہین رسالت ﷺمیں تبدیلی کا بھاشن دے دیا۔ 21 اپریل 2000 میں اسلام آباد میں منعقدہ تحفظ حقوق انسانی کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ آئندہ توہین رسالتﷺ کیس ڈی سی کی انکوائری کے بعد درج ہوگا اس سے اگلے روز برطانوی پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیشن کے وائس چیئرمین لارڈ ایرک نے اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ (24 اپریل 2000 روز نامہ جنگ راولپنڈی) پاکستان کے مسیحی حلقوں نے اس کو ایسٹر کا تحفہ قرار دیا۔پرویز مشرف کے اعلان نے اسلامیان پاکستان میں اضطراب برپا کر دیا شمع رسالت ﷺکے پروانے، دینی قوتیں سراپا احتجاج بن گئیں دینی قوتوں کو بھرپور مزاحمت پر پرویز مشرف کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور295-C کے تحت مقدمہ کے اندراج کا سابقہ طریقہ کار بحال کر دیا گیا ویسٹرن میڈیا پرویز مشرف کوہدف تنقید بنایا اور کہا کہ وہ ملاؤں کو خوش رکھنے کیلئے انسانی حقوق کے ایجنڈے سے روگردانی کر رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں قانون توہین رسالت ﷺ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا تھا۔ حکمرانوں کے اقدامات و بیانات سے اس بات کی بو آنے لگی ہے کہ وہ قانون توہین رسالت ﷺ میں ترمیم کیلئے پر تول رہے ہیں۔اسی حوالے سے روز نامہ جنگ 21اپریل 2010 میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں منعقدہ یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ جس میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ قانون توہین رسالت ﷺ کو تبدیل کرے۔کانفرنس میں شریک وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے کہا کہ حکومت پاکستان اس پر کام کر رہی ہے اور رواں کے آخر تک قانون توہین رسالت ﷺ میں تبدیلی کر دی جائے گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانون توہین رسالت ﷺ اقلیتوں کے قتل کیلئے استعمال ہوتا ہے انتہا پسند گروہ اور ذاتی عناد رکھنے والے عناصر قانون توہین رسالت ﷺکا غلط استعمال کرتے ہیں جبکہ مذکورہ قوانین ملک میں موجود اقلیتوں کے خلاف ہیں جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت اور پارسی شامل ہیں اور خاص طور پر قادیانیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔آصف زرداری ویٹی کن سٹی پاپائے روم پوپ پال بینی ڈکٹ سے ملاقات کیلئے گئے اس موقع پر پوپ پال نے پاکستان میں مسیحی اقلیت کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے قانون توہین رسالت ﷺکے خاتمہ پر زور دیا اور ویٹی کن سٹی ورلڈ کونسل آف چرچز آرچ بشپ آف کنٹر بری نے بھی پاکستان پر زور دیا کہ وہ قانون توہین رسالت ﷺ پر نظر ثانی کرے اس موقع پرآصف زرداری نے قانون توہین رسالت ﷺ پر نظر ثانی کا عندیہ دیا۔اس موقع پرگستاخ رسولﷺ آسیہ مسیح سے گورنر پنجاب کی ملاقات اور حکومت کے اقدامات و بیانات نے شمع رسالت ﷺکے پروانوں میں اضطراب و اشتعال کی کیفیت پیدا کر دی۔ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں ایک بار پھر ناموس رسالت ﷺکے فورم پر متحد ہوگئیں۔ ملک بھر میں احتجاجی جلسے، جلوس، مظاہروں کا نہ تھمنے والا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔دینی قوتوں کی اپیل پر 24دسمبر 2010 کا احتجاج و ہڑتال اسلام دشمن قوتوں اور ان کے ایجنٹوں کیلئے واضح پیغامتھا، پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے خواہشمند ناموس رسالت ﷺایکٹ کے خلاف سازشیں کرنے والے ناکام ہونگے، شمع رسالت ﷺکے پروانے اپنے آقاﷺکی عقیدت و محبت کی لازوال داستان رقم کر نا جانتے ہیں، ناموس رسالت ﷺکی پاسبانی کیلئے آج پاکستان کے غیور مسلمان تمام مذہبی طبقات اپنے فروعی و نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد و یکجان ہو چکے ہیں۔ وقت ثابت کرے گا یہود و ہنود کے ایجنٹ مغرب کے پرواردہ عناصر ذلیل ورسوا ہوں گے، یہود وہنود کے ایجنٹ
اور ان کے ہمنوا افراد کان کھول کر سن لیں امت مسلمہ گستاخ رسول ﷺ کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتی۔ رسول اللّٰہ ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے سب کچھ قربان کر دیا جائے گا قانون توہین رسالت ﷺ کو غیر مؤثر بنانے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ اس قانون کو غیر مؤثر یا تبدیل کرنے والوں کو قوم اقتدار کے ایوانوں سے باہر پھینک دے گی۔اس کے بعد سے لیکر اب تک درجنوں گستاخوں نے جنا ب رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی جن کو ابھی تک تختہ دار پر نہیں لٹکایا جا سکا،سب سے پہلے محسن انسانیت جناب نبی کریم ﷺکی ذات اقدس ہے،آپ ﷺ کی شان میں گستاخی اسلامیان پاکستان کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔