Key Points
- No content found
تحریک ختم نبوت 1953،پس منظر
مولاناقاری محمد سلمان عثمانی
تحریک ختم نبوت 1953ء میں لاہور، لائل پور (فیصل آباد) گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ساہیوال،سرگودہا، راولپنڈی اور دوسرے تمام شہروں اور قصبوں کی حالت یہ تھی کہ رضاکار اپنے اپنے بھرتی کے مراکز پر آتے، جسم پر بڑی دلیری سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کر دیتے تھے۔ رضاکاروں کا یہ جذبہ گفتنی نہیں، دیدنی تھا۔ بس ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے ان نوجوانوں کے سینوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگ گئے ہیں اور یہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر خواجہ بطحاصلیﷺکی حرمت پر قربان ہو جانا چاہتے ہیں۔ہندوستا ن تقسیم ہوا، خدادداد مملکت پاکستان معرض وجود میں آئی، بدنصیبی سے اسلامی مملکت پاکستان کا وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔ اس نے مرزائیت کے جنازہ کو اپنی وزارت کے کندھوں پر لاد کر اندرون و بیرون ملک اسے متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز ترکردی، ان حالات میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امیر کاروان احرار کی رگ حمیت اور حسینی خون نے جوش مارا، پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا پیغام لے کر ملک عزیز کی نامور دینی شخصیت اور ممتاز عالم دین مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر گئے اور اس تحریک کی قیادت کا فریضہ انہوں نے ادا کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر سر سینہ شریف رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، ماسٹر تاج دین انصاری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اختر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔ بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی۔ جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ہر چند کہ اس تحریک کو مرزائی اور مرزائی نواز اوباشوں نے سنگینیوں کی سختی سے دبانے کی کوشش کی مگر مسلمانوں نے اپنے ایمانی جذبہ سے ختم نبوت کے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ تحریک کے ضمن میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے علماء اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب کرنابڑاکٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ تحریک کے رہنماؤں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماؤں کے لیے وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت کے عظیم مقصد کے لیے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحیم اشعر رحمۃ اللہ علیہ اور رہائی کے بعد مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے رہنماؤں نے آپ کے مکان پر انکوائری کے دوران قیام کیا اور مکمل تیاری کی۔ ان ایام میں شیخ المشائخ قبلہ حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں قیام پذیر رہے اور تمام کام کی نگرانی فرماتے رہے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحمن میانوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ، سائیں محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا غلام نبی جانباز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم کارنامہ تھا کہ انہوں نے الیکشنی سیاست سے کنارہ کش ہو کر خالصتاً دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ، چوہدری افضل حق رحمۃ اللہ علیہ اور خود حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے قادیانیت کو جو چرکے لگائے وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس کے گھر تک تعاقب کیا۔ نیز مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ محمداقبال ؒ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ردِّ مرزائیت میں غیر فانی کردار ادا کیا۔ مجلس احرار اسلام کی کامیاب گرفت سے مرزائیت بوکھلا اٹھی، مجلس احراراسلام پر مسجد شہید گنج کا ملبہ گرا کر اسے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ صدر مجلس احرار نے ایک موقعہ پر ارشادفرمایا کہ تحریک مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں پورے ملک سے دو اکابر اولیاء اللہ ایک حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری رہنمائی کی اور تحریک سے کنارہ کش رہنے کا حکم فرمایا، حضرت اقدس ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ نے یہ پیغام بھجوایا تھاکہ مجلس احرار تحریک مسجد شہید گنج سے علیحدہ رہے اور مرزائیت کی تردیدکا کام رکنے نہ پائے اسے جاری رکھا جائے اس لیے اگر اسلام باقی رہے گا تو مسجدیں باقی رہیں گی، اگر اسلام باقی نہ رہا تو مسجدوں کو باقی کون رہنے دے گا؟مسجد شہید گنج کے ملبہ کے نیچے مجلس احرار کو دفن کرنے والے انگریز اور قادیانی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے کہ انگریز کو ملک چھوڑنا پڑا جبکہ مرزائیت کی تردید کے لئے مستقل ایک جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے نام سے تشکیل پائی، ان حضرات نے سیاست سے علیحدگی کا محض اس لئے اعلان کیا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت کی ترویج کے سلسلہ میں ان کے کوئی سیاسی اغراض ہیں۔ چنانچہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے مرزائیت کے خلاف ایسا احتسابی شکنجہ تیار کیا کہ مرزائیت مناظرہ، مباہلہ، تحریر و تقریر اور عوامی جلسوں میں شکست کھاگئی۔ جگہ جگہ ختم نبوت کے دفاتر قائم ہونے لگے، مولانا لال حسین اختررحمۃاللہ علیہ نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک قادیانیت کا تعاقب کیا۔ مرزائیت نے عوامی محاذ ترک کرکے حکومتی عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش و کاوش کی اور وہ انقلاب کے ذریعہ اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مرحوم نے تحریک 53 کے متعلق فرمایا تھاکہ اگر ”میرے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی یہ خیال ہو کہ میں اس تحریک کے ذریعے سیاسی اقتدار حاصل کروں گا مجھ پر اور میرے اہل و عیال پر غضب نازل ہو۔“7ستمبر 1974 کو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو ملک کے ساتویں غیر مسلم اقلیت قرار دیا،تب سے اب تک تحریک اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے اور جب تک یہ فتنہ ختم نہیں ہو جاتا یہ تحریک پرامن طور پر جاری رہے گی،اگر چہ ماضی قریب میں اس تحریک کو مبینہ طور پر ہائی جیک کرکے ایسے ہاتھوں میں دینے کی کوشش کی گئی، جن کے طرز عمل نے تحریک اور اس کے نتائج کو سبوتاژ کیا یا کروایا، تاریخ ایسے کرداروں کو پوری طرح بے نقاب کرکے رہے گی اور تحریک ختم نبوت امت مسلمہ کے بے لوث مجاہدین ختم نبوت کے ہاتھوں آگے بڑھتی رہے گی،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتفاق و اتحاد کے ساتھ کامیابیوں سے نوازیں،آمین