True concept of Khatm e Nabuwat from Holy QuranArticles – English
Top bar

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ…… شخصیت و کردارو خدمات


مولانا قاری محمد سلما ن عثمانی
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے،جن کی گرانقدر خدمات ناقابل فراموش ہیں، آپ علم و عرفان اور شریعت و طریقت، دونوں میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے اللہ نے انہیں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے خاص طور پر چنا تھا،حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ یکم رمضان المبارک 1859ء مطابق 1275ہجری کو قصبہ گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے،یہ دور بڑا مشکل دور تھاجس میں انگریز کا ظلم اپنے عروج پر تھا مغلیہ دور دم توڑ چکا تھا، دین اسلام کے رشد و ہدایت و علم کے چراغ زمانے کے ہاتھوں گل ہو چکے تھے مسلمان قید و ترک وطن کی صعوبتوں میں زندگی گزار رہے تھے کچھ ہستیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت و سربلندی کیلئے پیکر بنا کرتجدید دین کے لیے پیدا فرما دیتا ہے جو ا سلام کو کبھی نیچا نہیں ہو نے دیتے جن کی خدمات سے معاشرہ میں روحانیت پیدا ہو جاتی ہے اور معاشرہ منور ہوجا تا ہے، ایسی شخصیات مسلمانوں کے لیے مینارہ ئنورکی حیثیت رکھتی ہیں جس وقت انگریز مغرب کی بے حیائی اور ناپاک عزائم مسلمانوں پر اپنے نظریات کو مسلط کرنا چاہتا تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہستی کو پیدا فرمایا جو قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے ایمان کے پاسبان بنا اور ختم نبوت اور تعظیم و توقیر رسول عربیؐ کا جھنڈا بلند کیا، جس کا نام پیر مہر علی شاہ ہے جس نے حق و باطل میں فرق کیا اور دین کا جھنڈا بلند کیا،1890 میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ نے مستقل طور پر مدینہ طیبہ میں سکونت پذیر ہونے کا ارادہ کر لیا اس غرض سے حج کا سفر کیا، مدینہ طیبہ میں حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے بعد بہت خوش ہوئے کہ اب زندگی کی باقی تمام بہاریں گنبد خضرا ء کی ٹھنڈی چھاؤں تلے گزاریں گے، اسی روز حضور ﷺ پیر مہر علی شاہؒ کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا ”مہر علی“ہندوستان میں مرزا قادیانی میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہوواپس جاؤ اور اس فتنہ کا سدباب کرو،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی اپنے امتی کو ہمیشہ اعلیٰ و ارفع کام کا حکم دیتا ہے مسجد نبوی ﷺ میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، جبکہ بیت اللہ شریف میں ایک نماز ادا کرنے پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے، حضرت ابن عمرؓ حضور نبی کریم ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہو کہ مدینہ طیبہ میں مرے، اسے چاہیے کہ وہیں مرے، اس لیے کہ میں اس شخص کا سفارشی ہوں گا جو مدینہ میں مرے گا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میں اس کا گواہ بنوں گا“ (ترمذی، ابن ماجہ)لیکن یہاں حضور نبی کریم ﷺاپنے ایک امتی کو حکم دے کر قادیانی فتنہ کی سرکوبی کے لیے واپس ہندوستان بھیج رہے ہیں اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ تحفظ ختم نبوت کا کام جہاد عظیم ہے، اس کام سے بڑھ کر کوئی کام نہیں،جو کوئی شخص دنیا کے کسی خطے میں تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اسے بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ﷺمیں نمازیں پڑھنے سے کروڑوں درجہ زائد ثواب ملتا رہے گا کیونکہ اس کی کوشش سے ایک مسلمان مرتد ہونے سے بچ جاتا ہے، اگر کوئی شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے تو اس کو ثواب تو ہوگا ہی لیکن اس کی وجہ سے جتنے آدمی اس نیک کام کو شروع کریں گے یا اس فتنہ کے کفریہ عقائد سے آگاہ ہو کر اپنا ایمان بچائیں گے یا اس فتنہ میں مبتلا لوگ واپس حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے تو ان سب لوگوں کی نیکیوں میں اس شخص کا بھی مستقل حصہ ہوگا، یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ تحفظ ختم نبوت کے کام کی سرپرستی اور نگرانی براہ راست حضور نبی کریم ﷺ خود فرماتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر خود راہنمائی بھی فرماتے ہیں، مرزا قادیانی جو نبوت کا جھوٹا دعویدار تھا اور امت کو گمراہ کررہا تھا جس کیلئے نبی کریم ﷺ نے پیر مہر علی شاہ کو واپس بھیجااور اس فتنہ کی سرکوبی اور تعاقب کا حکم صادر فرمایا،جب یہاں ماحول گرم تھا لوگوں کو قادیانی فتنہ کے خلاف شعور پیدا کردیا گیا قادیانیوں میں صف ماتم کا سماں تھا یہاں نبوت و امامت کے جھوٹے دعویدار کو اب قدم باہر نکالنے کی جرأت نہیں ہورہی تھی اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے 24 اگست1900 کو حضرت پیر صاحب علما و مشائخ کی معیت میں لاہور تشریف پہنچے تو علما و عوام نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا آپ نے لاہور پہنچتے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ مرزا آیا ہے یا نہیں؟مباحثہ کا انعقاد شاہی مسجد لاہور میں قرار پایا تھا۔ لہٰذا25-26 اگست کو دونوں اطراف سے نمائندے اور عام مسجد میں ہو کر منتشر ہوتے رہے۔ لیکن مرزا کو نہ آنا تھا اور نہ آیا بلکہ قتل ہو جانے اور بے عزتی کا خطرہ ظاہر کر کے قادیان میں ہی قید ہو کر رہ گیا، اس دوران قادیانی جماعت کے ایک وفد نے ایک اندھے اور اپاہج کے حق میں مباہلہ کرنے کی گزارش کی کہ اس طرح مستجاب الدعا کا پتہ چل جائے گا اور اس کے نتیجہ میں حق و باطل واضح ہو جائے گا۔ جواب میں حضرت پیر صاحب نے فرمایا کہ مرزا صاحب کو یہ کہہ دیں کہ اگر مردے بھی زندہ کرانے ہیں تو آ جائیں جب مرزاکی آمد سے قطعاً مایوسی ہو گئی تو27 اگست کو شاہی مسجد میں مسلمانوں کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں علمائے کرام نے اس دعوتِ مناظرہ کی مکمل داستان بیان کر کے قادیانیت کی واضح تصویر لوگوں کے سامنے رکھی اور تمام مسالک کے سرکردہ علما نے ختم نبوت کی یہ تفسیر بیان کی کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ ؐکے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا اور جو شخص بھی اس عقیدہ کا منکر ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔چنانچہ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ واپس ہندوستان تشریف لائے اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پیر صاحب نے نہ صرف مسلمانوں کو اس فتنہ کی شر انگیزیوں سے آگاہ کیا بلکہ قادیانیت کی تردید میں کئی ایک کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں قادیانی عقائد و عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپ کی بھرپور کوششوں سے مرزا قادیانی حواس باختہ ہو گیا اور کہا کہ بادشاہی مسجد لاہور میں میرے ساتھ تفسیر نویسی کا تحریری مناظرہ کر لیں، پیر صاحب نے جواباًفرمایا کہ ممکن ہے اس طرح مناظرہ میں فیصلہ نہ ہو سکے۔ ایک کاغذ پر قلم تم رکھ دو، ایک کاغذ پر قلم میں رکھ دیتا ہوں جس کا قلم خود بخود لکھنا شروع کر دے، وہ سچا اور جس کا قلم پڑا رہے وہ جھوٹا پھر فرمایا کہ اگر یہ بھی منظور نہیں تو تم حسب وعدہ، شاہی مسجد میں آؤ، ہم دونوں اس کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں، جو سچا ہوگا، وہ بچ جائے گا اور جو کاذب ہوگا، وہ مر جائے گا مرزا قادیانی نے جواب میں اس طرح چپ سادھی کہ گویا دنیا ہی سے رخصت ہو گیا، تحفظ ختم نبوت کے لیے پیر مہر علی شاہ کی خدمات قابل تحسین ہیں پیر مہر علی شاہؒ نے فرمایا ”یہ دعویٰ میں نے ازخود نہیں کیا تھا بلکہ حضور نبی کریم ﷺکے جمال باکمال سے میرا دل اس قدر قوی اور مضبوط ہو گیا تھا کہ مجھے یقین کامل تھا کہ اگر اس سے بھی کوئی بڑا دعویٰ کرتا تو اللہ تعالیٰ ایک جھوٹے مدعی نبوت کے خلاف ضرور مجھے سچا ثابت کرتے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اس کی پشت پر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ ہوتا ہے،ختم نبوت کے مبارک مشن پر کام کرنے والے مبارک باد کے مستحق ہیں،اللہ تعالیٰ پیر مہر علی شاہ کی کامل مغفرت فرمائے اور قبر پر کروڑوں رحمتیں نصیب فرمائے۔آمین